وادیِ خاموش قبیلہ

Horror all age range 2000 to 5000 words Urdu

Story Content

چار دوست، سلیم، عائشہ، عمر اور زینب، جو فطرت کے محقق تھے، ایک پراسرار جگہ، وادیِ خاموش پہنچے۔ یہ جگہ پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک گھنی جنگل تھی، جہاں ہو کا عالم ایسا تھا کہ کسی پرندے کی آواز تک نہ آتی تھی۔
جوں ہی انہوں نے جنگل میں قدم رکھا، عجیب و غریب واقعات رونما ہونا شروع ہو گئے۔ ان کے قدموں کی آوازیں غیر فطری طور پر تیزی سے واپس آرہی تھیں، جیسے کوئی ان آوازوں کو دہرا رہا ہو۔ درختوں کے درمیان خاموشی سے سائے سرک رہے تھے، اور رات کو نم ہوا میں ایک مبہم، دور کی آواز سنائی دیتی تھی... تقریبا کسی کے سانس لینے جیسی۔
سلیم، جو گروپ کا سب سے زیادہ متجسس رکن تھا، نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، 'کیا تم لوگوں نے بھی یہ چیزیں محسوس کی ہیں؟ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم تنہا نہیں ہیں۔'
عائشہ، جو تھوڑی زیادہ مشکوک تھی، نے جواب دیا، 'مجھے لگتا ہے کہ تم بہت زیادہ سوچ رہے ہو۔ یہ صرف ایک خاموش جنگل ہے، اور تم اس سے خوفزدہ ہو رہے ہو۔'
لیکن جلد ہی، عائشہ کو بھی احساس ہونے لگا کہ سب کچھ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ایک رات، انہوں نے درختوں کے درمیان کھڑے، پیلے سفید چوغے پہنے ہوئے لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا۔ وہ انسانی دکھائی دیتے تھے، لیکن ان کے تاثرات مکمل طور پر جامد تھے۔
عمر نے ہمت مجتمع کی اور پوچھا، 'تم لوگ کون ہو؟ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟'
کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ محض ساکت کھڑے رہے، انہیں گھورتے رہے۔ ان کی خاموشی سب سے زیادہ پریشان کن تھی۔
زینب نے، جو گروپ کی سب سے زیادہ حساس رکن تھی، کہا، 'ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ مجھے یہ جگہ پسند نہیں آرہی ہے۔'
جیسے ہی دوست بھاگنے لگے، ایک سرگوشی خاموش جنگل میں گونجی: 'تم چار تھے۔ تو پانچواں کون ہے؟'
یہ آواز کہاں سے آرہی تھی، کسی کو معلوم نہیں تھا۔ لیکن اس نے دوستوں کے درمیان خوف کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ کیا ان میں سے کوئی ایک، جو نظر نہیں آرہا تھا، بھی ان کے ساتھ تھا؟
انہوں نے ایک دوسرے پر نظر ڈالی، ان میں شک و شبہات جنم لینے لگے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے سوالات شروع کردیے، ایک دوسرے کی وفاداری پر شک کرنے لگے۔
ایک رات، سلیم نے انکشاف کیا کہ اس کا بچپن کا ایک خیالی دوست تھا، جس کا نام راشد تھا۔ باقی دوستوں نے اس بات کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا تھا، لیکن سلیم نے ہمیشہ یقین کیا تھا کہ راشد حقیقی ہے۔
لیکن سلیم کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ راشد کبھی خیالی نہیں تھا۔ وہ دراصل وادیِ خاموش کے قبیلے کا ایک کھویا ہوا رکن تھا۔ اور اب وہ اسے واپس لینے آئے تھے۔
قبیلہ، جس کی اصلیت انسانی نہیں تھی، نے ان کے پانچویں رکن کو واپس لانے کا فیصلہ کیا۔ اور وہ اسے بھی لینے آئے تھے، جو اب اس کے ساتھ رہ رہا تھا۔
دوستوں کو احساس ہوا کہ قبیلے کا مقصد انہیں ڈرانا یا تکلیف دینا نہیں تھا، بلکہ انہیں واپس لے جانا تھا—جو ان سے تعلق رکھتا تھا۔
ان کا آخری پیغام یہ تھا: 'ہم تمہیں روکنے نہیں آئے ہیں۔ ہم پانچوں کو واپس لینے آئے ہیں۔' یہ سن کر ان چاروں دوستوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ کیا اب پانچواں ان میں سے ایک ہو گا؟ اور اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
سلیم اور اس کے دوست اب ایک نہ ختم ہونے والے خوف کی گرفت میں مبتلا ہو چکے تھے۔